پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والے صلاح الدین ایک ذہنی مریض تھا ذہنی مریض کو کسی گھر میں رکھنا اور اسکی دیکھ بھال بہت مشکل ہوتی اکثر اوقات گھر والوں کو کرب سے گزرنا پڑتا ہے کیونکہ اسکا خود پر کنٹرول نہیں باہر جو اسکے ساتھ مزاق اور چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے وہ الگ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ذہنی صحتمند افراد کو علاج کی سہولتوں میسر نہیں بلکہ ہر آنے والے حالات میں ذہنی بیماریوں اور نفسیاتی مسائل میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور عام بیماریوں کا علاج بھی بہت مشکل ہے
ایسے میں پنجاب پولیس اپنی رٹ ثابت کرنے کےلئے کہ ہم تو گونگوں سے بھی اگلوا لیتے ہیں کے چکر میں تشدد کے ذریعے ایک آدمی کو موت کے گھاٹ اتار دیا مجھے ابھی یاد ہے وہ میڈیا جو اب آہو زاری کر رہا ہے صلاح الدین کے مرنے سے پہلے بریکنگ نیوز دے رہا تھا کہ پنجاب پولیس کے آگے گونگے بھی بولنے لگے، یہ کمال تو ہماری پولیس کا ہے ٹارچر میں انکا ثانی کوئ نہیں اسکے بعد یہ وہ جرم۔بھی ملزم سے اقرار کروا لیتے ہیں جو اس نے نہیں کیے ہوتے۔الیکشن سے پہلے عمران خان نے پولیس اصلاحات کی بہت بات کی مگر الیکشن کے بعد عثمان بزدار کو وزیراعلی بنا کر پنجاب پولیس میں اصلاحات تو کیا ہوتیں یہ پولیس بزدار کی ضرورت بن گئی جیسے پہلے ہر حکمران کی ضرورت رہی پنجاب میں پولیس اصلاحات پر کئ کمیٹیاں اور کمیشن بنے اکثر ریٹائر ہونے والے آی جی کو بھی پولیس اصلاحات ریٹائر ہونےکے بعد یاد آتی ہیں مگر کسی نے اصلاحات نہیں کیں کیونکہ اس کے بعد حکومت کس طرح مخالفین کو قابو کرے گی وڈیروں جاگیرداروں اور بااثر افراد کیا کریں گے اگر پولیس اصلاحات ہوگئیں۔پنجاب میں ابھی تک پولیس ایکٹ 1861 لاگو ہے جس میں پولیس آرڈر 2002 میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی پولیس آرڈر 2002 کے نفاذ کے ایک سال بعد حکومت کو احساس ہوا اسکا تو فائدہ عوام کو ہے حکومت کی پولیس میں مداخلت ضروری ہے پولیس کا چیک اینڈ بیلنس کا نظام بھی مناسب نہیں لہذا ایک سال بعد ہی پولیس آرڈر کی کئ دفعات اور شقیں ختم کرکے پولیس ایکٹ 1861 کا سہارا لینا پڑا تھانے میں پولیس کی بھرتی ترقی بھی ہمیشہ سوالیہ نشان رہی خاص طور پر ایس ایچ او کی تعنیاتی،۔ دنیا میں تفتیش کے کئ جدید طریقے ہیں جس میں کافی حد تک فرینزک سائنس سے بھی مدد لی جاتی ہے ہمارے ہاں تفتیش کا وہی پرانا طریقہ ہے اسطرح بغیر اصلاحات اور جدید دور کے تقاضوں کو پورا نہ کرنے کی صورت میں یہ نظام جو بری طرح فرسودہ ہو چکا ہے ایک دن ضرور Collapse کر جاۓ گا۔
اسکے ساتھ ضرورت اس امر کی ہے اس قسم کے ذہنی مریضوں کی تفتیش تھانوں کے بجاۓ ڈاکٹر اور ماہر نفسیات کی خدمات لی جائیں اسکے بعد ایک حد تک سیکورٹی کی حد تک پولیس کی مدد لی جاۓ